Poem – نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم

امیر خسروؒ کی مشہور نعت ۔ نمی دانم چہ منزل بود


نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم
بہ ہر سو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم

خبر نہیں وہ کیا جگہ تھی، جہاں رات میں نے گزاری تھی
ہر سمت عاشق مچل رہے تھے، جہاں رات میں نے گزاری تھی

 

پری پیکر نگارے، سرو قدے، لالہ رخسارے
سراپا آفتِ دل بود، شب جائے کہ من بودم

محبوب کا حسن جیسے ہو پری، لمبا قد و رخسار پھولوں کی ڈلی
دل پہ وہ آفت ڈھا رہی تھی، جہاں رات میں نے گزاری تھی

 

رقیباں گوش بر آواز، او در ناز، من ترساں
سخن گفتن چہ مشکل بود، شب جائے کہ من بودم

رقیبوں نے تھی تاک لگایی ، حسیں نے بلایا، بڑھنے کی پر ہمّت نہ پائی
مشکل بہت تھی وہاں لب کشائی، جہاں رات میں نے گزاری تھی

 

خدا خود میرِ مجلس بود اندر لا مکاں خسرو
محمدؐ شمعِ محفل بود، شب جائے کہ من بودم

خدا نے ہی وہ محفل سجایی تھی، جہاں پر خسرو کی بن آی تھی
محمد کی روشنی محفل کی شمع تھی، جہاں رات میں نے گزاری تھی