Four Mystics

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

Hazrat Maulana Ghulam Rasool Rajeekee Sahib (r.a)

Download Hiyat-e-Qudsi – Urdu

Hazrat Maulana Ghulam Rasool Rajeekee Sahib (r.a) was one of the great companions of the Promised Messiah (a۔s).

He was one of the early missionaries of the Jama’at and was renowned in the Jama’at for his piety and acceptance of prayers.

When asked for prayers he would raise his hands and pray to Allah, the prayers usually lasted a very long time. Everybody was encouraged to join him. After a while he would tell you if the prayers were accepted or not. He used to say “I have seen a light” if the prayers had been accepted by Allah.

Dr. Hmidullah Khan sahib said that his father, Abdul Salam Khan, told him that on one occasion during dars Hazrat Rajeekee Sahib (ra) paused for quite a while and then restarted his dars of the Holy Quran. Hazrat Qazi Mohammad Yusuf Sahib (ra), who was also a companion of the Promised Messiah and was Amir of NWFP province, asked him the reason for this after the dars. Hazrar Rajeekee Sahib said that as he was pondering over the meaning of a certain verse of Holy Quran, when Hazrat Jibreel (as) came and explained the meaning to him.

Memories of Hazrat Maulana Ghulam Rasool Rajeekee sahib (r.a)

Report of the Debate in Kartarpur

Maulvi Muhammad Ibrahim Baqapuri sahib (r.a)

Maulvi Muhammad Ibrahim Baqapuri sahib (r.a) was one of the great companions of the Promised Messiah (a.s)

Hayat-e-Baqapuri – Download – Urdu

Hazrat Dr. Mir Muhammad Ismael (r.a)

In the following book, he explains his encounter with God in Masjid Mubarak, Qadian

Urdu – Audio Book

——————————-

His encounter with God in Masjid Mubarak, Qadian

خمخانہ عشق میں ایک رات: اللہ تعالیٰ کا حضرت میر محمد اسماعیل صاحب سے اپنی محبت کا اظہار

حضرت ڈاکٹرمیر محمد اسماعیل صاحب کے ایک کشف کی روئیداد

حضرت ڈاکٹرمیر محمد اسماعیل صاحب نے اپنے ایک مضمون بعنوان ’’ خمخانۂ عشق میں ایک رات ‘‘ میں اپنا ایک حیرت انگیز روحانی تجربہ بیان کیا ہے۔ یہ مضمون جو کہ الفضل قادیان مورخہ 3 نومبر 1936ء میں چھپاتھا، واقعی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔یہ واقعہ کشفی اور الہامی کیفیات کا مجموعہ ہے۔ ہم اسے مکالمۂ الٰہیہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ دسمبر 1920ء کی بات ہے۔ حضرت میر صاحب کی عمر اس وقت 39برس تھی۔ ایک رات آپ مسجد مبارک قادیان میں عشاء کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو دیکھتے دیکھتے مسجد نمازیوں سے خالی ہوگئی اور آپ تنہا رہ گئے۔ حضرت میر صاحب بھی مسجد کی سیڑھیاں اُترنا شروع ہوئے کہ عشق الٰہی کی ایک عجیب کیفیت نے از خود آپ کے دل میں جوش مارا۔ گویا یہ کیفیت آپ کے دل پر نازل کی گئی۔ ساتھ ہی آپ کو مسجد کے اندر سے ایک غیبی آواز آئی کہ:’’ میرا گھر چھوڑ کر اپنے گھر چلا ہے ؟ اور پھر ایسے خلوت کے وقت میں جو آئندہ کبھی میسر نہیں آئے گا ؟ ‘‘ یہ آواز سن کر آپ اُلٹے پیر واپس مسجد کی سیڑھیاں چڑھنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پھر یہ حکم ہواکہ’’حریمِ قُدس کا رستہ بھول گیا ! یہ سیڑھیاں تو خمخانۂ عشق میں نہیں آتیں۔ نہ یہ عاشقوں کا راستہ ہے۔ ‘‘ پھر خدا تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ :’’ آنا ہے تو پُرانی سیڑھیوں کی طرف سے آ۔ اور سر کے بل آ۔ اور گریبان چاک کر کے آ۔ ‘‘

چنانچہ اس الٰہی حکم کی تعمیل میں حضرت میر صاحب نے اُن قدیم اور تنگ سیڑھیوں کا رستہ اختیار کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام استعمال فرماتے تھے۔ چونکہ خداتعالیٰ کے سب سے بڑے عاشق اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی تھے، اسی لئے وہ پُرانی سیڑھیاں ہی عاشقوں کا راستہ کہلائے جانے کے لائق تھیں۔ حضرت میر صاحب نے اس وقت ایک بے اختیاری کی حالت میں خود اپنے ہاتھوں سے اپنا گریبان چاک کیا۔ پرانی سیڑھیوں کی دہلیزپر پہنچے تو پھر حکم ہوا : ’’ اے اَشْعَث اَغْبَر لے اُٹھ اور اوپر چل۔‘‘ اَشْعَث اَغْبَر سے مراد بکھرے بال اور غبار آلودہ پیشانی والا شخص ہے۔ چنانچہ آپ نے پھر سیڑھیوں کو اِس طرح قدم بہ قدم طے کیا کہ ہر زینہ پر سجدہ کرتے اور پھر اپنی داڑھی سے اسے صاف کرتے اور پھر اگلے زینے کی طرف بڑھتے۔ آپ نے سیڑھیوں کا یہ مختصر سا رستہ زینہ بہ زینہ ایک گھنٹے میں طے کیا۔ مسجد میں پہنچ کر پھر آپ عبادت اور دعاؤں میں مشغول ہوگئے۔ اس راز و نیاز کے دوران حضرت میر صاحب نے اللہ تعالیٰ سے اُس کی بخشش طلب کی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آیا کہ

’’ مفت ؟ ‘‘حضرت میر صاحب نے عرض کیا ’’ میں کیا پیش کر سکتا ہوں۔ جو کچھ ہے وہ آپ کا ہی دیا ہوا ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

’’ جان اور ایک چیز سب سے عزیز‘‘

اِس حسین و دلنشین مکالمۂ الٰہیہ کے بعد حضرت میر صاحب کی تہجد جاری رہی۔ تہجد اور فجر کے درمیانی وقت میں جب کہ آپ محراب کے پیچھے پہلی صف میں بیٹھے تھے، کوئی دبے پاؤں خاموشی سے آپ کے پیچھے سے گزرا۔حضرت میر صاحب نے سر اُٹھا کر دیکھا تو بحالت بیداری آپ کو کشفاً اپنے سامنے ایک بہت بڑا آئینہ دکھائی دیا۔ تب آپ کو یہ احساس ہوا کہ جو ہستی آپ کے پیچھے تھی، وہ اِس آئینہ میں اپنا جلوہ آپ کو دکھانا چاہتی ہے۔ پھر اچانک آنکھ کو چندھیا دینے والا ایک نور اس آئینہ میں ظاہر ہوا جسے نظر بھر کر دیکھنا ناممکن تھا۔ لیکن حضرت میر صاحب نے پھر بھی ہمت کر کے اس آئینہ میں جلوہ گر خدا تعالیٰ کی تجلّی کو نظر بھر کر دیکھ ہی لیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی وہ نورانی تجلّی اسی طرح آہستہ آہستہ اُلٹے پاؤں پیچھے ہٹ گئی۔ حضرت میر صاحب کے اپنے الفاظ میں’’ یوں معلوم ہوتا تھا کہ اُس جانِ جاناں نے مجھے اپنا رخِ زیبا دکھانے کیلئے یہ شکل آفتابِ نصف النہار کی اختیار کی ہے اور میں نے اِس تمام ناز و انداز کے اندر ایک ارادہ، ایک مذاق، ایک شوخی، ایک ترحّم اور ایک محبت کی نظر کو بچشمِ خود ملاحظہ کیا۔‘‘حضرت میر محمد اسماعیل صاحب اللہ تعالیٰ کے ان بندوں میں سے تھے، جن کے بارے میں وہ خود فرماتا ہے کہ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ یعنی وہ خداکا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ دیدار کے اسی شوق نے آپ کو مجبور کیا کہ اس روحانی تجربہ کے دوران آگے بڑھ کر اور ہمت کر کے، اس نور کا نظر بھر کر مشاہدہ کریں کہ جس نور کی تاب آنکھیں نہیں رکھتیں۔صبح ہوتے ہی حضرت میر صاحب نے اللہ تعالیٰ سے اشارہ پا کر، پہلے ایک سیاہ بکرا اور ایک سفید مینڈھا قربان کئے۔ پھر اپنی عزیز ترین جائیداد یعنی آپ کا وہ ذاتی مکان جومسجد مبارک قادیان کے عین ساتھ تھا اور جس کا نام آپ نے ’’کنج عافیت‘‘ رکھا تھا وہ جماعت کو دے دیا۔ پھر جب گھر پہنچے تو اپنی عزیز بیٹی سیّدہ مریم صدیقہ پر نظر پڑی۔ آپ نے اُسی وقت اپنی بیٹی کو گود میں اُٹھا کر یہ دعا کی کہ ’’ اس کا نام ہی شاہد ہے۔ میرا پہلے بھی یہی ارادہ تھا۔ اب اسے بھی قبول فرمائیے۔ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنًا إِنَّك أنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ‘‘اس حسین روحانی تجربہ پر جو کیفیت حضرت میر صاحب کے دل کی تھی، وہ آپ کے اپنے الفاظ میں پڑھنے کے لائق ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں۔

’’زہے نصیب وہ اور مجھے اپنا چہرہ دکھائیں۔ وہ اور مجھ سے میری جان کا مطالبہ کریں۔ وہ اور مجھ سے ایک عزیز چیز کی نذر طلب فرمائیں۔‘‘ مسجد مبارک اور دارالمسیح کے قرب میں واقع آپ کی عزیز جائیداد ’’کنج عافیت‘‘وقف ہونے کے بعد اخبار الفضل کے دفتر کے طور پر استعمال ہوئی اور پھر بعد میں جماعت کے ہسپتال کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ گویا حضرت میر صاحب کا یہ نذرانہ اسی وقت قبول ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نذرانے کی قبولیت کا یوں ثبوت دیا، کہ ’’ کنج عافیت ‘‘سلسلۂ احمدیہ کے مختلف مقاصد کے لئے کام آتا رہا اور وقف رہا۔

حضرت میر محمد اسماعیل نے اپنی پہلی بیٹی کا نام ’’مریم صدیقہ‘‘ اِس نیت سے رکھا تھا کہ وہ حضرت مریم کی طرح اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف ہو، اور اسی بیٹی کا دوسرا نام آپ نے ’’ نذر الٰہی ‘‘ بھی اسی خیال سے رکھا تھا۔ یہ فکر حضرت میر صاحب کو بدستور لاحق رہی کہ ’’ مریم صدیقہ ‘‘کی صورت میں پیش کئے جانے والا نذرانہ قبول ہوا ہے یا نہیں۔ یہ فکر تقریباً 15 سال حضرت میر صاحب کو دامنگیر رہی۔ بالآخر خدا کی درگاہ میں اس نذرانے کی قبولیت کا نشان اس طرح ظاہر ہوا کہ آپ کی عزیز بیٹی سیّدہ مریم صدیقہ کا ہاتھ، آپ کی بڑی بہن حضرت (اماں جان )نے اپنے بیٹے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی کے لئے مانگ لیا۔ 1935ء میں سیّدہ مریم صدیقہ بنت حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کی شادی حضرت مرزا محمود احمد ابن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہوئی۔ خلیفۃ المسیح کی بیگم کی حیثیت سے حضرت سیّدہ مریم صدیقہ (حضرت چھوٹی آپا) نے اپنا فرض خوب نبھایا اور اپنی زندگی خدمتِ دین اور تعلیمِ قرآن کیلئے وقف رکھی۔ صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی حیثیت سے دنیا بھر کی احمدی عورتوں کی تربیت اور تنظیمی رہنمائی بھی کی اور یوں ’’ نذر الٰہی ‘‘ کے نام کی حقدار ٹھہریں۔رہا معاملہ ’’جان‘‘ کے نذرانہ کا، سو وہ بھی خوب انداز میں قبول ہوا۔ …

From pre-Ahmadiyyat Period:

Abū āmid Muammad ibn Muammad al-Ghazālī (r.h)

Al-Ghazali  (1058- 1111) was one of the most prominent and influential philosophers, theologians, jurists, and mystics of Islam.

Book – al-Munqidh min al-dalal – Deliverance from Error

Book – Secondary Link
Wiki – Secondary Link

Al-Ghazali is not a merely theoretical writer. He illustrates his arguments with real examples, and his advice is based on his own experience.

Al-Ghazali was both son and father to his society. He gave to it more than he took out. He continued his struggle against evil forces, ill-thinking, and false assumptions which traded in the name of Islam until death forced him to stop.

Al-Munqidh min al-Dalal reflects al-Ghazali’s development and his path to Sufism.

“During my successive periods of meditation there were revealed to me things impossible to recount. All that I shall say for the edification of the reader is this: I learned from a sure source that the Sufis are the true pioneers on the path of God; that there is nothing more beautiful than their life, nor more praiseworthy than their rule of conduct, nor purer than their morality. The intelligence of thinkers, the wisdom of philosophers, the knowledge of the most learned doctors of the law would in vain combine their efforts in order to modify or improve their doctrine and morals; it would be impossible. With the Sufis, repose and movement, exterior or interior, are illumined with the light which proceeds from the Central Radiance of Inspiration. And what other light could shine on the face of the earth? In a word, what can one criticize in them? To purge the heart of all that does not belong to God is the first step in their cathartic method. The drawing up of the heart by prayer is the key-stone of it, as the cry “Allahu Akbar” (God is Great) is the key-stone of prayer, and the last stage is the being lost in God. I say the last stage, with reference to what may be reached by an effort of will; but, to tell the truth, it is only the first stage in the life of contemplation, the vestibule by which the initiated enter.

From the time that they set out on this path, revelations commence for them. They come to see in the waking state angels and souls of prophets; they hear their voices and wise counsels. By means of this contemplation of heavenly forms and images they rise by degrees to heights which human language can not reach, which one can not even indicate without falling into great and inevitable errors. The degree of proximity to Deity which they attain is regarded by some as intermixture of being (halul), by others as identification (ittihad), by others as intimate union (wasl). But all these expressions are wrong, as we have explained in our work entitled, “The Chief Aim.” Those who have reached that stage should confine themselves to repeating the verse

What I experience I shall not try to say;
Call me happy, but ask me no more.

In short, he who does not arrive at the intuition of these truths by means of ecstasy, knows only the name of inspiration. The miracles wrought by the saints are, in fact, merely the earliest forms of prophetic manifestation. Such was the state of the Apostle of God, when, before receiving his commission, he retired to Mount Hira to give himself up to such intensity of prayer and meditation that the Arabs said: “Muhammad indeed passionately loves his Lord!”

This state, then, can be revealed to the initiated in ecstasy, and to him who is incapable of ecstasy, by obedience and attention, on condition that he frequents the society of Sufis till he arrives, so to speak, at an imitative initiation. Such is the faith which one can obtain by remaining among them, and intercourse with them is never painful.”