بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
Seven Stages in the Spiritual Journey of the Observance of Prayer
There are seven stages in the spiritual journey of the observance of prayer. The right of the establishment of prayer can fully be offered only after one passes through these stages. Hadhrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad(ra) has elaborated upon this exquisite topic in a remarkable manner. He states:
‘The first stage, below which there is no stage whatsoever, is that man offers his five daily prayers regularly. A Muslim who offers his five daily prayers and does not break in between, acquires the lowest level of faith.
The second stage in prayer is that all five prayers are offered at the stipulated time. When one offers his five daily prayers on time, he steps to the second ladder of faith.
The third stage is that the prayer be offered in congregation. By the congregational observance of prayer, man steps to the third ladder of faith.
The fourth stage is that man observes the prayer whilst understanding its meaning. An individual who does not know the translation of prayer, should learn the translation and observe prayers. Moreover, one who does know the translation, should offer the prayer slowly, until he understands that he has done justice to the prayer.
Then, the fifth stage is that man becomes fully engrossed in the prayer. Just as one plunges into water, man should plunge into his prayer, until he acquires one of the two ranks: either that he is seeing God, or if not, he firmly believes that God the Exalted is seeing him.
After this, the sixth stage of belief is that an individual offers the Nawafil (Voluntary Prayers). One who offers the Nawafil expresses to God the Exalted, that he has offered his obligation, but he has not yet become satisfied by them, and he says, ‘O God, it is my desire to remain in Your royal court beyond the times of obligation.’
The seventh stage of belief is that man not only offers his five daily prayers and observes the Nawafil, but also prays Tahajjud (Late night/pre-dawn prayer) during the night. These are the seven stages by which prayer is deemed complete.
Hence, it is necessary for an individual to attain these seven stages. It is the responsibility of every individual that he observes prayer on time. It is the responsibility of every individual that he observes the prayer in congregation. It is the responsibility of every individual that he observes the prayer whilst understanding it, and after learning its translation. It is the responsibility of every individual that in addition to the obligatory prayer timings, he offers the Nawafil during the night and day……Then every individual should offer his obligatory and supereroga-tory (Nawafil) prayers with such assiduousness that even his nights become days. Similarly, one should try to acquire the greatest possible advantage from the supplications of Tahajjud. Until and unless one does not safeguard his prayers in this manner, for one to think that one can please God is nothing more than a fallacy.’
حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد رضی اللہ عنه نماز کے متعلق فرماتے ہیں
یاد رکھنا چاہیے کہ نماز کی پابندی کئی رنگ کی ہوتی ہے۔
سب سے پہلا درجہ جس سے اُتر کر اور حقیر اَور کوئی رنگ نہیں یہ ہے کہ انسان بالالتزام پانچوں وقت کی نمازیں پڑھے۔ جو مسلمان پانچوں وقت کی نمازیں پڑھتا ہے اور کبھی ناغہ نہیں کرتا وہ ایمان کا سب سے چھوٹا درجہ حاصل کرتا ہے۔
دوسرا درجہ نماز کا یہ ہے کہ پانچوں نمازیں وقت پر ادا کی جائیں۔ جب کوئی مسلمان پانچوں نمازیں وقت پر ادا کرتا ہے تو وہ ایمان کی دوسری سیڑھی پر قدم رکھ لیتا ہے۔
پھر تیسرا درجہ یہ ہے کہ نماز باجماعت ادا کی جائے۔ باجماعت نماز کی ادائیگی سے انسان ایمان کی تیسری سیڑھی پر چڑھ جاتا ہے۔
پھرچوتھا درجہ یہ ہے کہ انسان نماز کے مطالب کو سمجھ کر نماز ادا کرے۔جو شخص ترجمہ نہیں جانتا وہ ترجمہ سیکھ کر نماز پڑھے اور جو شخص ترجمہ جانتا ہو وہ ٹھہر ٹھہر کر نماز کو ادا کرے۔ یہاں تک کہ وہ سمجھ لے کہ مَیں نے نماز کو کَمَاحَقُّہٗ ادا کیا ہے۔
پھرپانچواں درجہ نماز کا یہ ہے کہ انسان نماز میں پوری محویت حاصل کرے اور جس طرح غوطہ زن سمندر میں غوطہ لگاتے ہیں اُسی طرح وہ بھی نماز کے اندر غوطہ مارے۔ یہاں تک کہ وہ دو میں سے ایک مقام حاصل کرلے۔ یا تو یہ کہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہو اور یا یہ کہ وہ اِس یقین کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو کہ خداتعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے۔ اِس مؤخرالذکر حالت کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی اندھا بچہ اپنی ماں کی گود میں بیٹھا ہو۔اپنی ماں کی گود میں بیٹھے ہوئے اُس بیٹے کو بھی تسلی ہوتی ہے جو بیناہو اور اپنی ماں کو دیکھ رہا ہو۔ مگر ماں کی گود میں بیٹھے ہوئے اُس بیٹے کو بھی تسلی ہوتی ہے جو نابینا ہو۔ اِس خیال سے کہ اُس کی ماں اُسے دیکھ رہی ہے۔ گو وہ نابینا ہوتا ہے اور اپنی ماں کو نہیں دیکھ سکتا مگر اُس کا دل مطمئن اور تسلی یافتہ ہوتا ہے۔ صرف اِس لیے کہ اُسے یہ یقین ہوتا ہے کہ اُس کی ماں اُسے دیکھ رہی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نماز پڑھتے وقت بندے کو ایک مقام ضرور حاصل ہونا چاہیے۔ یا تو یہ کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہو۔ یا یہ کہ اُس کا دل اِس یقین سے لبریز ہو کہ خدا تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے۔ یہ ایمان کا پانچوں مقام ہے اور اِس مقام پر بندے کے فرائض پورے ہو جاتے ہیں۔ مگر جس بامِ رفعت پر اُسے پہنچنا چاہیے اُس پر نہیں پہنچ سکتا۔
اِس کے بعد چھٹا درجہ ایمان کا یہ ہے کہ نوافل پڑھے جائیں۔ یہ نوافل پڑھنے والا گویا خدا تعالیٰ کے حضور یہ ظاہر کرتا ہے کہ مَیں نے فرائض کو تو ادا کر دیا ہے مگر ان فرائض سے میری تسلی نہیں ہوئی اور وہ کہتا ہے کہ اے خدا! مَیں چاہتا ہوں کہ مَیں ان فرائض کے اوقات کے علاوہ بھی تیرے دربار میں حاضر ہوا کروں۔ جیسے کئی لوگ جب کسی اعلیٰ افسر یا بزرگ کی ملاقات کو جاتے ہیں تو وہ مقررہ وقت گزر جانے پر کہتے ہیں دو منٹ اَور دیجیے۔ اور وہ ان مزید دو منٹوں میں لذت محسوس کرتے ہیں اور وہ ان دو منٹوں کو چٹّی نہیں سمجھتے بلکہ اُن سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اِسی طرح ایک مومن جب فرائض کی ادائیگی کے بعد نوافل پڑھتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ سے کہتا ہے کہ اب مَیں اپنی طرف سے کچھ مزید وقت حاضر ہونا چاہتا ہوں۔
ساتواں درجہ ایمان کا یہ ہے کہ انسان نہ صرف پانچوں نمازیں اور نوافل ادا کرے بلکہ رات کو بھی تہجد کی نماز پڑھے۔ یہ وہ سات درجات ہیں جن سے نماز مکمل ہوتی ہے اور اِن درجات کو حاصل کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ رات کے وقت عرش سے اُترتا ہے اور اُس کے فرشتے پکارتے ہیں اے بندو! خدا تعالیٰ تمہیں ملنے کے لیے آیا ہے۔ اُٹھو!اور اُس سے مل لو۔
پس اِن سات درجوں کوپورا کرنا ہم میں سے ہر ایک احمدی کا فرض ہے۔ ہماری جماعت چونکہ ایک مامور کی جماعت ہے اِس لیے ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کا پابند ہو۔ ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نمازوں کو وقت پر ادا کیا کرے۔ یا ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز باجماعت ادا کیا کرے، ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کو سوچ سمجھ کر اور ترجمہ سیکھ کر ادا کرے، ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ علاوہ فرض نمازوں کے رات اور دن کے نوافل بھی پڑھا کرے اور ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کے اندر محویت پیدا کرے اور اِتنی محویت پیدا کرے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق یا تو وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہو یا وہ اپنے دل میں یہ یقین رکھتا ہو کہ خدا تعالیٰ اسے ضرور دیکھ رہا ہے۔
فرمودہ2جنوری 1948ء بمقام رتن باغ لاہور